ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

چراغِ عشقِ نبی سے حیات روشن ہے


قضا کے بعد بھی شمعِ حیات روشن ہے

نبی کے چاہنے والوں کی ذات روشن ہے


جمالِ رخ کی ضیاؤں سے ہے منور دن

نبی کی زلف ِ معنبر سے رات روشن ہے


نبی کے عشق میں گزری ہے جس کسی کی بھی

حیات اُس کی فروزاں ممات روشن ہے


وہ حیرتوں کے سمندر میں غرق رہتے ہیں

وہ جن پہ رحمتِ عالم کی ذات روشن ہے


اُٹھا کے دیکھ لو مشکواۃ ، تِرمذی ، مسلم

ہر ایک پہلو سے اُن کی حیات روشن ہے


وہ دیکھ جل اُٹھی شمعِ شفاعتِ آقا

نہ ڈر شفیقؔ تو راہِ نجات روشن ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

ہیں واقف مِری دھڑکنوں سے طلب سے

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے

ایسا کسی کا حسن نہ ایسا جمال ہے

جی کردا مدینے دیا سائیاں

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں