درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

نچھاور سرورِ دیں پر زمیں سے آسماں تک ہے


بوقتِ صبحِ صادق کون آیا آمنہ کے گھر

خدا کے نور کی چادر زمیں سے آسماں تک ہے


خدا نے رفعتیں بخشی ہیں جن کے ذکرِ انور کو

انہیں کا تذکرہ گھر گھر زمیں سے آسماں تک ہے


یہاں بھی کام آتا ہے وہاں بھی کام آئے گا

مِرا آقا مِرا یاور زمیں سے آسماں تک ہے


ہوئے ہیں لامکاں کے جو مکیں معراج کی شب میں

پہنچ اُن کی کہوں کیوں کرزمیں سے آسماں تک ہے


یہاں بھی حکمرانی ہے وہاں بھی حکمراں ہیں وہ

شفیعِ حشر کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے


اگر ایماں کی پوچھو تو یہی ہے بات ایماں کی

شفیقؔ اُن کا کہاں ہمسر زمیں سے آسماں تک ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

ہیں واقف مِری دھڑکنوں سے طلب سے

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے

ایسا کسی کا حسن نہ ایسا جمال ہے

جی کردا مدینے دیا سائیاں