نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

اگر ہے ایسا تو پھر ہماری یہ زندگی زندگی نہیں ہے


چہل پہل نور کی جہاں ہے نثار بازارِ مصر جس پر

تمہی بتاؤ اے زائرو کیا مدینے کی وہ گلی نہیں ہے


اُسے خبر ہے اُسے پتہ ہے لگا ہے نامِ نبی کا طغرا

ہمارے گھر کی طرف مصیبت اُٹھاکے سر دیکھتی نہیں ہے


جسے جو چاہیں عطا وہ کر دیں بلاکے منگتا کی جھولی بھردیں

نبی سا مختارِ کل جہاں میں یقین جانو کوئی نہیں ہے


گزر رہی ہے بڑے مزے میں حیات وصفِ رسول کرتے

گدائے آقائے دو جہاں ہیں ہمارے گھر کچھ کمی نہیں ہے


نبی کے روضے کے سامنے ہم پڑھیں درود و سلام پیہم

نصیب ایسا کہاں ہے اپنا نصیب ایسی گھڑی نہیں ہے


کرم کبھی تو نبی کا ہوگا کبھی تو حرفِ جلی بنے گا

شفیقؔ حرفِ خفی ہے جب تک شعاعِ طیبہ پڑی نہیں ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

کس قدر تھا احترامِ باریابی دیکھیے

درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

ہیں واقف مِری دھڑکنوں سے طلب سے

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے

ایسا کسی کا حسن نہ ایسا جمال ہے