خاموش سی اک طرز فغاں لے کے چلا ہوں

خاموش سی اک طرز فغاں لے کے چلا ہوں

آنکھوں سے نہاں اشک رواں لے کے چلا ہوں


سرکار کے قدموں سے جبیں، عرش معلے

محراب کے سجدوں میں نشاں لے کے چلا ہوں


اب گنبد خضری کے سوا عکس، نہ منظر

آنکھوں میں محبت کا بیاں لے کے چلا ہوں


نام اُن کا مرے واسطے ہے محضر برات

میں صاحب کوثر سے اماں لے کے چلا ہوں


ہر قید زماں اور مکاں ہے مری نخچیر

جو زندہ رہے اب وہ سماں لے کے چلا ہوں


طیبہ کی ہر اک راہ مری راہ نما ہے

سرکار کے قدموں کے نشاں لے کے چلا ہوں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

بشر ہے وہ مگر عکس صفات ایسا ہے

لب عیسی پہ بشارت کی جو مشعل تھا کبھی

ہر ایک لفظ کے معنی سے اک جہاں پیدا

روشن ہے مرے خواب کی دُنیا مرے آگے

مدینہ شہر نہیں ہے، مری تمنا ہے

مرا رفیق میرے ساتھ شہر طیبہ میں

فتح سرکار پہ شیطاں کی فغاں کو دیکھو

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ