خوشا! مژدہ سنایا جا رہا ہے

خوشا! مژدہ سنایا جا رہا ہے

مجھے در پر بلایا جا رہا ہے


ہجومِ غم میں کر کے دستگیری

مذلّت سے اٹھایا جا رہا ہے


تہجد کی گھڑی میں نعت کہ کر

مقدّر کو جگایا جا رہا ہے


متاعِ عفو دے کر عاصیوں کو

کرم وعدہ نبھایا جا رہا ہے


شفاعت کی ردا میں مصطفیٰؐ کی

گناہوں کو چھپایا جا رہا ہے


لبوں پر نام ہے خیر النسا کا

جبینوں کو جھکایا جا رہا ہے


خوشا اے نعت گو شاخِ عطا کو

تری خاطر ہلایا جا رہا ہے


ہوا دل خوگرِ وصلِ مواجہ

پلٹ کر اب نہ آیا جا رہا ہے


ملے مژدہ قریں روضے کے طاہرؔ

مرا مدفن بنایا جا رہا ہے

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

دھو کر زباں کو زمزم و عرقِ گلاب سے

ہے زمین پر جنّت ، آفریں مدینے کے

اوج ہم خواب کا بھی دیکھیں گے

لفظوں کو ممتاز بنایا میرے کملی والے نے

دل مرا مدینے کے آس پاس رہتا ہے

نعت ان کی خدا کی رحمت ہے

مختصر محدود و ناقص آدمی کی سوچ ہے

ہر شعر مرا مدحتِ طاہر کی طرح ہے

لطفِ شہؐ سے دل مرا آباد ہے

چشمِ رحمت یا نبیؐ درکار ہے