مائل بہ کرم ‘ چشمِ عنایات بھی ہوگی

مائل بہ کرم ‘ چشمِ عنایات بھی ہوگی

خورشید سے ذروں کی ملاقات بھی ہوگی


مایوس نہیں ہیں شہِ خوباں ؐ کے بھکاری

تقسیم کبھی حسن کی خیرات بھی ہو گی


کٹ جائیں گے ایام میری تشنہ لبی کے

میخانہ سلامت رہے برسات بھی ہوگی


آئے گی جہاں گیسوئے واللیل کی خوشبو

سجدہ بھی ادا ہوگا مناجات بھی ہوگی


یہ دور بڑے نام سے منسوب ہوا ہے

اُس نام کی نسبت سے مکافات بھی ہوگی


آقاؐ کبھی بدلیں گے میرے شام و سحر بھی

تبدیل کبھی صورتِ حالات بھی ہوگی


چمکے گی درو بام کی تقدیر بھی واصؔف

اِس گھر پہ کبھی تابشِ لمحات بھی ہوگی

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

دیگر کلام

شبِ فرقت کٹے کیسے سحر ہو

دَ سے صورت راہ بے صورت دا

اللہ ہو جب اس کا ثنا گر‘ نعت کہوں میں کیسے

خواب کو رفعت ملے ‘ بے بال و پر کو پر ملے

حضورؐ ہی کے کرم سے بنی ہے بات میری

درِ مصطفیٰؐ پہ سوال ہے درِ مجتبیٰؐ پہ سوال ہے

ؐیا شفیع المذنبیںؐ یا رحمتہ اللعالمیں

جگت گرُو مہاراج ہمارے ، صلّی اللہ علیہ وسلم

!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

!خاور کہوں کہ بدرِ منّور کہوں تُجھے