درِ مصطفیٰؐ پہ سوال ہے درِ مجتبیٰؐ پہ سوال ہے
درِ الضحیٰ پہ سوال ہے کہ جو شمع بزمِ خیال ہے
میری زندگی تیری بندگی ‘ تیری بندگی میری زندگی
تیرا حسن خاتمِ دلبری ‘ تو رسولنا ہمہ حال ہے
تو ہی کائنات کا راز ہے تیرا عشق عین نماز ہے
مجھے تیری ذات پہ ناز ہے تو ورائے مثل و مثال ہے
تو خدا کا نور خدا نما یہ ہے من رآنی کا مدعا!
تیرے واسطے سے خدا ملا تو خدا کا حسنِ خیال ہے
تو رؤف ہے تو رحیم ہے ‘ تیرا نور نُورِ قدیم ہے
تو احد کا پردہء میم ہے تو مصوّری کا کمال ہے
تیرا اسم عین صفات ہے تیری ذا ت مظہرِ ذات ہے
تیرا عشق اصلِ حیات ہے میری زندگی کا مآل ہے
ہے یہ التجا میرے ملتجا‘ مجھے جام دے میرے ساقیا
میں گدا ہوں تیرے جمال کا ‘ مجھے آرزوئے وصال ہے
میرا سینہ سینئہ طور ہو‘ ترے نور ہی کا ظہور ہو
یہ کرم حضورؐ ضرور ہو ‘ کہ وسیع ترا جمال ہے
بڑی دیر سے تھی یہ آرزو تیرا آستانہ ہو روبرو
میری جستجو ہوئی سرخرو ‘ یہ تیری نظر کا کمال ہے
تیرے نام سے جو بنا وطن ‘ ہے اسی پہ وقت بڑا کٹھن
ہو نگاہِ لطف شہِ زمن میری آبرو کا سوال ہے
تیرا بندہ واصفِؔ بے خبر‘ تیرے عشق سے ہوا بہرہ ور
تیرا راز سمجھا ہے ا س قدر ‘ تیرا راز پانا محال ہے
شاعر کا نام :- واصف علی واصف
کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب