وہی ہے باعثِ تخلیقِ ہستئ عالم

وہی ہے باعثِ تخلیقِ ہستئ عالم

!وہی ہے مظہرِ انوار ‘ نازشِ آدم


صداقتوں کا پیمبر‘ حقیقتوں کا امیں

لطافتوں کا مرقّع ‘ کمالِ حُسنِ شِیَم


خدا سے مانگے وہ بخشش ہر آدمی کے لئے

بشر سے مانگے وہ تسبیحِ خالقِ اعظم


وہ نفرتوں کی خلیجوں کو پاٹنے والا

وہ جس کے خُلق سے دشمن بھی بن گئے ہمدم


وہی ابد کے سفر میں میں ہے آسرا سب کا

ازل سے جس کی ہے سب پرنوازِ پیہم


وہ جس کی یاد سے ملتی ہے دولتِ تسکیں

وہ جس کا نام ہے زخموں کے واسطے مرہم


وہ راہبر بھی ہے ‘ منزل بھی ہمسفر بھی وہی

کڑے سفر کی کڑی دھوپ میں وہ ابرِ کرم !


اسی پہ بھیج درود و سلام اے واصِفؔ

اُسی کے فیض سے قائم ہے عاصیوں کا بھر م

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

دیگر کلام

درِ مصطفیٰؐ پہ سوال ہے درِ مجتبیٰؐ پہ سوال ہے

ؐیا شفیع المذنبیںؐ یا رحمتہ اللعالمیں

جگت گرُو مہاراج ہمارے ، صلّی اللہ علیہ وسلم

!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

!خاور کہوں کہ بدرِ منّور کہوں تُجھے

دیدارِ ذاتِ پاک ہے چہرہ حضورؐ کا

مُبارک اہلِ ایماں کو کہ ختمُ المرسلیں ؐ آئے

معراج کی رات

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ