رسائی میری اگر ہوگئی مدینے تک

رسائی میری اگر ہوگئی مدینے تک

پہنچ ہی جاؤں گا قربِ خدا کے زینے تک


احد کو پانے میں احمد کا عشق لازم ہے

پہنچ سکیں گے تبھی معرفت کے زینے تک


کیے بڑے بڑے دعوے گلاب و عنبر نے

نہ پہنچی مشک بھی سرکار کے پسینے تک


بس ایک بار ہی دیکھا ہے گنبدِ خضریٰ

رہے گا کیف وہی ساری عمر جینے تک


ہمیں یقیں ہے کہ روحانیت کی ایک سرنگ

براہ راست ہے مارہرہ سے مدینے تک


انہیں جو خواب میں دیکھا تو خود کو بھول گئے

رہا نہ ہوش ہمیں پھر کئی مہینے تک


پھر ایک دن ہوئی ان کی ہی اک نگاہِ کرم

درود لایا ہمیں ہوش کے قرینے تک


بس اب تو ساقیِ کوثر سے لَو لگائی ہے

کبھی تو آئے گا اک جام مجھ کمینے تک


بھنور میں ہوں مگر آقا کے فضل پر شاکر

کنارے خود ہی چلے آئیں گے سفینے تک


تمھارا عشق ہے صادق اگر تو اے نظمی

پہنچ ہی جاؤ گے ایک بار پھر مدینے تک

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے

یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق

نعتِ شانِ مصطفیٰ ہے شغل ہر جنّ ملک

یہ کس کا تذکرہ عرشِ عُلا تک

مصطفیٰ صلِّ علیٰ سید و سرور کے طفیل

کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے

کانِ کرامت شانِ شفاعت صلی اللہ علیہ وسلم

جن کے شہرِ پاک کی قرآں میں آئی ہے قسم

شافعِ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام