یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق

یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق

یہ کس کے نور سے چمک دمک رہے شفق شفق


یہ کس نے مردہ قوم کو بشارتِ حیات دی

یہ کس نے تر کیا ہے زندگی کا خشک تر حلق


وہ مصطفی وہ مجتبیٰ، وہی حبیبِ کبریا

کہ جن کے اتباع کا رسولوں کو ملا سبق


انہی کے نور کی شناخت ہیں زمین و آسماں

انہی کی ذات کا ظہور مہر و ماہ فلق فلق


خدائی ساری نظمی ان کے نام پر فدا ہوئی

انہی کے در کی بھیک پر ہے منحصر خَلَق خَلَق

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

اے خدا ہند میں رکھنا مرا ایماں محفوظ

بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

مصطفیٰ روشن کریں گے جب شفاعت کا چراغ

چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے

نعتِ شانِ مصطفیٰ ہے شغل ہر جنّ ملک

یہ کس کا تذکرہ عرشِ عُلا تک

رسائی میری اگر ہوگئی مدینے تک

مصطفیٰ صلِّ علیٰ سید و سرور کے طفیل

کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے