بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

آدم سے ایں دم تک سب کو فیض رساں وہ نوری شعاع


اقرا کے عنوان سے کل جو غارِ حرا پر چمکی تھی

آج اسلام کا سورج بن کر چھائی ہے وہ پہلی شعاع


آئے تھے خطاب کے بیٹے سر لینے شمشیر بکف

اپنا سب کچھ دے بیٹھے جیسے ہی پڑی رحمت کی شعاع


عرش سے آگے منزل کرنا عام بشر کا کام نہیں

نورِ ازل میں گم ہونے کو پہنچی تھی وہ نوری شعاع


لات و منات و ہبل و عُزّیٰ پل میں سجدہ ریز ہوئے

جاء الحق و زھق الباطل کی چمکی توحیدی شعاع


رحمتِ عالم نے نظمی دنیا کو جینا سکھلایا

امن و اخوت کی کرنیں لے کر آئی قرآنی شعاع

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

بحرو بر، برگ و شجر، پانی و پتھر خاموش

جتنے اوصاف ہیں ان سب سے ہے برتر اخلاص

مہ و خورشید ہیں قربان جمالِ عارض

کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعا فقط

اے خدا ہند میں رکھنا مرا ایماں محفوظ

مصطفیٰ روشن کریں گے جب شفاعت کا چراغ

چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے

یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق

نعتِ شانِ مصطفیٰ ہے شغل ہر جنّ ملک