چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

چل پڑا ہے قافلہ پھر سے مدینے کی طرف

دل کا قبلہ کر لیا ہے ان کے روضے کی طرف


حشر میں اذنِ شفاعت مصطفیٰ کو ہے ملا

تک رہی ہیں اُمتیں آقا کے چہرے کی طرف


ناز برداری خدا کرتا ہے یوں محبوب کی

سمتِ قبلہ پھیر دی اقصیٰ سے کعبے کی طرف


ہم کو کافی ہے سہارا احمدِ مختار کا

ہات پھیلائیں بھلا کیوں ایسے ویسے کی طرف


کب سے نظمی آپ کے در پڑا ہے اے حضور

اک نظر رحمت کی ہو اس اندھے شیشے کی طرف

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

مہ و خورشید ہیں قربان جمالِ عارض

کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعا فقط

اے خدا ہند میں رکھنا مرا ایماں محفوظ

بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

مصطفیٰ روشن کریں گے جب شفاعت کا چراغ

منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے

یہ کس کا ذکر ہو رہا ہے فرش و عرش افق افق

نعتِ شانِ مصطفیٰ ہے شغل ہر جنّ ملک

یہ کس کا تذکرہ عرشِ عُلا تک

رسائی میری اگر ہوگئی مدینے تک