سر مرا آپؐ کی دہلیز سے جب لگتا ہے

سر مرا آپؐ کی دہلیز سے جب لگتا ہے

سانس لینا بھی مجھے سوء ادب لگتاہے


بات کرتے ہوئے دیکھا ہے نبیؐ کو میں نے

ہر سخن ترجمہء آیہء رب لگتا ہے


صُلب آدم سے بھی پہلے تھا محمدؐ کا وجود

نور خلّاقِ جہاں اُن کا نسب لگتا ہے


میرے آقاؐ کی حضوری میں کشش ہے کتنی

سر سے پیروں تلک انسان طلب لگتا ہے


دیکھتا ہوں انھیں ہر سانس پہ آتے جاتے

حجرہ روح بھی صحرائے عرب لگتا ہے


در و دیوار حرم بھی پڑھا کرتے ہیں درود

چُپ کا انداز بھی پیرایہء لب لگتا ہے


کوئی بیماری باطن نہیں رہنے پاتی

آپؐ کا دھیان بھی ذہنوں کا مطب لگتا ہے


کتنے دن رہ کے مدینے میں مظفر دیکھا

گلی کوچوں کا نظارہ بی غضب لگتا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

طواف اُن کا کرے بزرگی

نبیؐ کی نعت ہے بام غزل

نہ پگڑی زیب دیتی ہے

جب مرے نبیؐ نے عرش پر خدا سے

مری حیات محمدؐ کے نام لکھ دینا

روشنی سے ہوں الگ سائے یہ منظور نہیں

دل چہرہء رسولِ خدا دیکھتا رہا

ہر اک زمیں کا آسماں، حضورؐ ہیں

صبحِ ازل کا ہے وہ تارہ

سیراب تجلّی میں مرے ترسے