روشنی سے ہوں الگ سائے یہ منظور نہیں

روشنی سے ہوں الگ سائے یہ منظور نہیں

زندگی اُن سے بچھڑ جائے یہ منظور نہیں


کاٹ دے سر کوئی میرا ، یہ گوارا ہے مجھے

اُن کے ناخن پہ خراش آئے یہ منظور نہیں


ہم غریبوں کا درودوں پہ گزارا ہے فقط

ہم سے چھن جائیں یہ سرمائے یہ منظور نہیں


رحمتیں آپ کی سیراب کئے رکھتی ہیں

کوئی دریا ہمیں تر سائے یہ منظور نہیں


نبض چلتی ہے تو آقاؐ سے اجازت لے کر

د ے ہمیں اور کوئی رائے یہ منظور نہیں


اپنی سانسوں سے ہمیں بوئے محمدؐ آئے

مختلف اُن سے ہوں پیرائے یہ منظور نہیں


اِس جہاں میں ہو مظفر کہ ہو اُس دنیا میں

اُن کا مدّاح نہ کہلائے یہ منظور نہیں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

نبیؐ کی نعت ہے بام غزل

نہ پگڑی زیب دیتی ہے

جب مرے نبیؐ نے عرش پر خدا سے

مری حیات محمدؐ کے نام لکھ دینا

سر مرا آپؐ کی دہلیز سے جب لگتا ہے

دل چہرہء رسولِ خدا دیکھتا رہا

ہر اک زمیں کا آسماں، حضورؐ ہیں

صبحِ ازل کا ہے وہ تارہ

سیراب تجلّی میں مرے ترسے

گلستانِ مصطفےٰؐ کا پھول بن