اُن کے در سے جو غلامی کی سند تک پہنچے

اُن کے در سے جو غلامی کی سند تک پہنچے

عمر کے باب میں وہ لوگ ابد تک پہنچے


مدح خواں خود ہے خدا آپ کا سبحان اللہ

کون ایسا ہے کہ جو آپ کے قد تک پہنچے


آپ کی ذات نے بخشی ہے ہمیں بینائی

آپ کی ذات سے ہم ربِّ احد تک پہنچے


خلقِ عالم میں یہ اعزاز ملا انساں کو

آپ معراج کی شب آخری حَد تک پہنچے


اُن چراغوں کو جلا، جن کا اجَالا اختؔر

خانۂ دل سے چلے اور لحد تک پہنچے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

پھر مدینہ دیکھیں گے، پھر مدینے جائیں گے

برستی رحمتِ پروردگار دیکھیں گے

اے حضورِ پاک مجھ کو نیک نامی دیجئے

اپنی اطاعت اپنی محبت مجھے بھی دو

انا سجدوں کی پوری ہو جبیں کو بھی قرار آئے

کچھ صلہ بھی بندگی کا چاہیے

سمندر رحمتوں کا فخرِ موجودات میں دیکھا

خدایا ان کے در کی حاضری لکھ دے مقدر میں

گلی کوچہ مثالِ کہکشاں ہے

ہر گام اس پہ سایہء ربِّ جلیل ہے