واہ کیا ہے کتابِ نعت پہ نعت
عُنفوانِ شبابِ نعت پہ نعت
اس کو وجدان پر نزول کہیں
یا کہیں اکتسابِ نعت پہ نعت
ان کی سیرت پہ گفتگو کرنا
اصل میں ہے نصابِ نعت پہ نعت
جاں میں اترے گی اس کی تازہ مہک
جب کہیں گے گلابِ نعت پہ نعت
چومتا ہوں نبیؐ کے در کو میں
ہوتی جاتی ہے بابِ نعت پہ نعت
ہیں تصوّر میں آپؐ جلوہ فگن
یہ بتاتی ہے خوابِ نعت پہ نعت
روح کی تشنگی بھی مٹتی ہے
آبِ کوثر ہے آبِ نعت پہ نعت
نعت پہ نعت تھی حضوری میں
اب ہے لیکن غیابِ نعت پہ نعت
فیصل آباد شہرِ نعت ہے آج
ہے یہاں انقلابِ نعت پہ نعت
جس سے الفاظ چاند تارے بنیں
ہے اسی آفتابِ نعت پہ نعت
جب بھی اس کو شمار میں لائوں
بڑھتی جائے حسابِ نعت پہ نعت
خاص خاصانِ لطفِ ربِّ علا
ہے رسالت مآبِ نعت پہ نعت
اک تسلسل ہے ان کی مدحت کا
آلِ عالی ، جنابِ نعت پہ نعت
اجر بڑھتا رہے ہزار گنا
جب بھی کہیے ثوابِ نعت پہ نعت
ختمِ آشوبِ چشمِ مولا علیؓ
ہے عطائے لعابِ نعت پہ نعت
ہو رہا ہے وداع کعبہ میں
ہے یہ خطبہ خطابِ نعت پہ نعت
نعت والد کے نام کر دینا
خوب ہے انتسابِ نعت پہ نعت
نعت اب اک ، سوالِ نعت پہ کہ!
طاہرؔ اک کہ! جوابِ نعت پہ نعت
شاعر کا نام :- پروفیسر محمد طاہر صدیقی
کتاب کا نام :- ریاضِ نعت