ارضِ طیبہ عجیب بستی ہے

ارضِ طیبہ عجیب بستی ہے

جس کو ہر اک نظر ترستی ہے


بالیقیں زائر حرم کے لیے

ہر قدم جذب کیف و مستی ہے


آپ کی ذاتِ پاک ہے سب کچھ

مری ہستی بھی کوئی ہستی ہے


دل کی دنیا کو کیا کہیں آخر

رحمتِ عرش خود برستی ہے


سرِ بازار جنسِ عشق حضور

جتنی مہنگی ہے اتنی سستی ہے


یا نبی آپ ہی بلا لیجیے

پاؤں زنجیرِ یاس کستی ہے


پئے نعت نبی مئے انوار

میرے افکار پر برستی ہے


بے جمال درِ حضور صبیحؔ

زندگی موت کو ترستی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

صد شکر کہ سرکار کا میں مدح سرا ہوں

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

تری شان بو ترابی ، مرا ذوق خاک بازی

ثنائےمحمد ﷺ جو کرتے رہیں گے

یامصطَفٰے عطا ہو اب اِذن، حاضِری کا

جس کا دل منبعِ حُبِ شہِ والا ہوگا

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں

مرے خواب میں آ بھی جا غوثِ اعظم

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا

مدینہ ونجف و کربلا میں رہتا ہے