حمد و ثنا سے بھی کہیں اعلیٰ ہے تیری ذات

حمد و ثنا سے بھی کہیں اعلیٰ ہے تیری ذات

انسان کیا بیان کرے تیری کُل صفات


دل ہیژدہ ہزار زمانوں کو کیا کہے ؟

اک لفظ کُن سے وضع کیے تو نے شش جہات


ہر برگِ گُل میں تو نے سموئی الٰہیّت

انسان کیسے سمجھے بھلا رنگِ درسیات


تیرا عطا کیا ہوا ہر دُکھ بھی اے کریم

واللہ اہلِ عشق کو ہے جانِ محسنات


قطروں میں بحر نور ، مسلسل ہے موجزن

ذرّوں کے قلب مشعلِ روحِ تجلیات


ذی روح رزق پاتے ہیں سینے میں سنگ کے

خود مشکلات ہیں ہمہ تن حلِ مشکلات


وہ بحر و بر ہوں ، آتش و گُل ہوں کہ برق و باد

بخشی سبھی کو تو نے عبادت کی کیفیات


درِ یتیم عرش کے مہمان ہو گئے

نا ممکنات بھی ہیں تجھ عینِ ممکنات


حق بندگی کا کیسے ادا ہو صبیؔح سے

انساں سے ماورا ہے ترا حسنِ التفات

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

وجودِ خاک خورشیدِ نبّوت کی

جسے خالقِ عالمیں نے پکارا سرا جاً منیرا

باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں

میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے

زہے عزّت و اِعتلائے مُحَمَّد ﷺ

مُبَارَک ہو حبیبِ ربِّ اَکبر آنے والا ہے

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

میری نگاہ سے مرے وہم و گماں سے دُور