ہر سانس ہجر شہ میں برچھی کی اک اَنی ہے

ہر سانس ہجر شہ میں برچھی کی اک اَنی ہے

دیکھوں دیارِ طیبہ دل میں یہی ٹھنی ہے


اُٹھوں نہ مرکے بھی میں طیبہ کی رہگذر سے

محدود حاضری میں بگڑی کہیں بنی ہے


سرکار کی فضیلت لاریب، غیب لیکن

قرآں کے آئینے میں دیکھو تو دیدنی ہے


محشر کی دھوپ کیا ہے ہم عاصیوں کے حق میں

گیسوئے مصطفیٰ کی چھاؤں بہت گھنی ہے


گریہ پہ میرے نم ہیں کیوں اہل زر کی آنکھیں

ہر اشک ہجرِ شہ میں ہیرے کی اک کنی ہے


دنیا کما رہے ہیں جو دیں کا نام لے کر

یہ رہبری نہیں ہے واللہ رہزنی ہے


میدانِ کربلا میں ثابت ہوا یہ سچ مچ

جو قول کا دھنی ہے وہ فعل کا دھنی ہے


جاں اے صبیح ؔ کیا ہے اس در پہ نذر کردو

دنیائے بے وفا سے کس کی سدا بنی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

قرآن میں دیکھا تو انداز نرالا ہے

اللہ رے تیرے در و دیوار,مدینہ

بیاں کیوں کر ثنائے مصطَفٰے ہو

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

السّلام اے مِلّتِ اسلامیہ کے جاں نثار

زمین و زماں تمہارے لئے

سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَالٖ

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر

دربار نبیؐ میں جھکتے ہی