حُسن مُطلق کے لیے ذاتِ گرامی چاہیے

حُسن مُطلق کے لیے ذاتِ گرامی چاہیے

طوفِ کعبہ میں بھی طیبہ کی سلامی چاہیے


مشکلیں خود مشکلوں میں مبتلا ہوجائیں گی

ہاں زبانِ دل سے وردِ نامِ نامی چاہیے


عرش کیا معراج کیا اور منزلِ قوسین کیا

اس سے بڑھ کر آپ کو اعلیٰ مقامی چاہیے


ہر مَلک صرف ایک بار آتا ہے درِ دربارِ پاک

کم سے کم اتنا تو آدابِ سلامی چاہیے


جرم رحمت بن کے چھا جائیں فضائے روح پر

عرصہء محشر میں مجھ کو ایسا حامی چاہیے


ہر نفس پر مستقل چھلکے گا جامِ معرفت

چشمہء کوثر کی اصلی تشنہ کامی چاہیے


میری کیا جراءت کہ بن جاؤں غلام ِ مصطفیٰ

مجھ کو تو ان کے غلاموں کی غلامی چاہیے


نعت گوئی کے لیے درکار ہے کچھ تو صبیحؔ

حُسنِ حسّاں، صدقِ قدسیؔ جامِ جامیؔ چاہیے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

رسولِ اُمّی جسے آشنائے راز کرے

مدینہ ونجف و کربلا میں رہتا ہے

حسنِ اسلام کا ہے علم جسے

مرے جذبوں کو نسبت ہے فقط اسمِ محمد سے

مدحت سے ابتدا ہو، مدحت پہ انتہا

ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا

اللہ ویکھاوے سب نوں

خوشا وہ دن حرم پاک کی فضاؤں میں تھا

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں