کیوں نہ دل میں وقعت ہو اس قدر مدینے کی

کیوں نہ دل میں وقعت ہو اس قدر مدینے کی

عرش ادب سے جھکتا ہے خاک پر مدینے کی


اس کو راس آئے گا کیا بہشت کا منظر

جس نے سیر کی ہوگی عمر بھر مدینے کی


یہ در محمد ہے پھونک کر قدم رکھو

خاکِ رہ بھی ہوتی ہے دیدہ ور مدینے کی


حشر تک وہ چمکے گا ہمہ تن نظر ہو کر

جس کو بھی زیارت ہو اک نظر مدینے کی


جب درود پڑھتے ہی مجھ کو نیند آتی ہے

خوب سیر کرتا ہوں رات بھر مدینے کی


احترام کیا ہوگا؟ جلوہء مدینہ کا

کیمیا ایماں ہے خاکِ در مدینے کی


جھوم جھوم اُٹھتا ہے ہر زماں کا ہر لمحہ

یاد کتنی ہوتی ہے خوش اثر مدینے کی


خود کھنچ آئے گا کعبہ اور طواف کر لینا

اے صبیحؔ رحمانی بات کر مدینے کی

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

تن من وارا جس نے دیکھا چہرہ کملی والےﷺ کا

کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر

کر ذکر مدینے والے دا

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

مل گیا ان کا در اور کیا چایئے

اجمیر بُلایا مجھے اجمیر بُلایا

اس طرف بھی شاہِ والا

تمام دنیا یہاں سلامت تمام عالم وہاں سلامت