مل گیا ان کا در اور کیا چایئے

مل گیا ان کا در اور کیا چایئے

اب دعا میں اثر اور کیا چاہئے


سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

مجھ کو پھر عمر بھر اور کیا چاہئے


اب کسی کو یہاں فکرِ منزل نہیں

آپ ہیں راہبر اور کیا چاہئے


نعمتیں دینے والے سے مانگوں انہیں

مجھ سے پوچھے اگر اور کیا چاہئے


سامنے آستانے کی ہیں جالیاں

اے مری چشمِ تر اور کیا چاہئے


پھر یقینا سہیل ان کا ہوگا کرم

ہے انہیں بھی خبر اور کیا چاہئے

شاعر کا نام :- سہیل غازی پوری

شرمِ عصیاں سے اٹھتی نہیں ہے جبیں

مُجھ کو دنیا کی دولت نہ زَر چاہئے

کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

نہ آسمان کو یوں سرکَشیدہ ہونا تھا

چلو دیار نبیﷺ کی جانب

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

دل و نظر میں بہار آئی سکوں

بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

میسر جن کو دید گنبدِ خضریٰ نہیں ہوتی

جب مسافر کے قدم رک جائیں