شمع دیں کی کیسے ہو سکتی ہے مدھم روشنی

شمع دیں کی کیسے ہو سکتی ہے مدھم روشنی

بزمِ طیبہ میں برستی ہے جھما جھم روشنی


خاک پائے شاہ کو سرمہ بنا لیتا ہوں میں

میری آنکھوں میں کبھی ہوتی ہے جب کم روشنی


نورِ مطلق کے قریں بے ساختہ پہنچے حضور

روشنی سے کس قدر ہوتی ہے مِحرم روشنی


نقش پائے شہ کی ہلکی سےجھلک ہے کار گر

کیسے ہو سکتی ہے مہر و مہ کی مدھم روشنی


گیسوئے پاک ان کے برہم ہو کے بھی برہم نہیں

ورنہ ہر عالَم کی ہو جائے گی برہم روشنی


شام اسریٰ مٹ گئی تفریق محبوب و محبّ

روشنی میں اس طرح ہوتی ہے مدغم روشنی


ہجر حضرت میں جہاں بھی کچھ اندھیرا چھائے گا

آنسووں سے مانگ لے گی چشم پُر نم روشنی


پانی پانی ہو ابھی ہجر شہِ کُل میں صبؔیح

میرے اشکوں کی جو دیکھے چاہِ زم زم روشنی

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

بیاں کیوں کر ثنائے مصطَفٰے ہو

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

خوش نصیب مدینے بلائے جاتے ہیں

ہم بھی ان کے دیار جائیں گے

یاشہیدِ کربلا فریاد ہے

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

ماہِ روشن بہارِ عالم

السّلام اے سبز گنبد کے مکیں

ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے