وہ جو قرآن ہو گیا ہوگا

وہ جو قرآن ہو گیا ہوگا

ان کا فرمان ہو گیا ہوگا


سجدہ کر کے جو سر نہیں اُٹھا

در پہ قربان ہو گیا ہو گا


یا عقیدت میں اپنی جاں دے کر

ہمہ تن جان ہو گیا ہوگا


کسے ملتا؟ مزاج پاک حدیث

حفظ، قرآن ہو گیا ہوگا


اپنے دل کو تلاش کرتا ہوں

ان کا ارمان ہو گیا ہوگا


جس نے دیکھا ہے بار بار انہیں

کیوں نہ ذیشان ہو گیا ہوگا


غم کا احساس کیوں نہیں ہے وہاں

ان کا احسان ہو گیا ہوگا


نعت کہتا رہا جو دل سے صبیحؔ

وہ بھی حسّان ہو گیا ہوگا

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

یادوں میں وہ شہرِ مدینہ

مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

اگر حُبِ نبی ؐ کے جام چھلکائے نہیں جاتے

خزینے رحمتوں کے پا رہا ہوں

در عطا کے کھلتے ہیں

میری نگاہ سے مرے وہم و گماں سے دُور

کُجھ نئیں درکار سانوں سامنے یار ہووے

اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نُورِ باری حجاب میں ہے