.ذکر سرکار، دو عالم سے سوا رکھا ہے

ذکر سرکار، دو عالم سے سوا رکھا ہے

یہ طریق اہلِ محبت نے روا رکھا ہے


آپ کے نام سے مقبول ہے کاوش میری

ورنہ میں کیا مرے اشعار میں کیا رکھا ہے


قدمِ صاحب معراج نے بخشا ہے عروج

ورنہ سچ پوچھو تو کونین میں کیا رکھا ہے


ارضِ طیبہ کا تصوّر ہے سبق جینے کا

حق نے مٹی میں بھی کیا رازِ شفا رکھا ہے


از ازل تا بہ ابد جو بھی جہاں ہے جو کچھ

حق نے سب کچھ انہیں قدموں پہ جھکا رکھا ہے


حاضرئ حرمِ کعبہ کا میں اہل نہیں

میں نے کعبہ درِ اقدس کو بنا رکھا ہے


مل ہی جائے گی کسی روز بصیرت مجھ کو

میں نے کچھ ذرّوں کو آنکھوں سے لگا رکھا ہے


کرمِ سیّدِ کونین کو کیا کہیے صبیح

درد کا نام محبت نے دوا رکھا ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

حمدیہ اشعار

رحمت برس رہی ہے محمد کے شہر میں

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

تری بات بات ہے معجزہ

مصطفؐےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام

مرحبا مرحبا آگئے مصطفےٰ

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

درِ رسولؐ پہ جا کر سلام کرنا ہے

کرم آقائے ہر عالم کا ہم پر کیوں نہیں ہوگا