یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

مدینہ جائے مِری جاں نہ لوٹ کر آئے


ہمارے گھر میں تو طغریٰ ہےاسمِ احمدکا

مجال ہے جو مصیبت ہمارے گھر آئے


خدا سے دولتِ دیدارِ مصطفےٰ مانگوں

دعا میں اپنی بھی اے کاش کچھ اثر آئے


ہمیشہ یونہی جو یادِ نبی رہے قائم

غمِ فراق میں تپ تپ کے دل نکھر آئے


نہ پوچھ کیف و سرورِ حریمِ ناز نہ پوچھ

جو اہلِ ہوش گئے مست و بے خبر آئے


وہ دن بھی آئے کہ ہم بھی کہیں شفیقؔ کبھی

خدا کے گھر سے حبیبِ خدا کے گھر آئے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنا

خوشا ان کی محبت ہے بسی

خوشی مناؤ خوشی مناؤ اے غم کے مارو

فجر دے رنگ ثنا تیری کرن یا اللہ

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

دورِ ظلمت بیت گیا اب

نکہت و رنگ و نور کا عالم

کالی کملی والے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے