جس کی آغوش میں دریا ہے وہ قطرہ ہوں میں

جس کی آغوش میں دریا ہے وہ قطرہ ہوں میں

جس میں صحرا نظر آتا یے وہ ذرہ ہوں میں


جانِ گلشن ہوں کبھی رونقِ صحرا ہوں میں

آج تک کوئی نہ سمجھا وہ معمہ ہوں میں


میں جھلکتا ہوں ہر اک رنگ کے آئینے میں

نور ہر چشم کا ہر قلب کا کھٹکا ہوں میں


جس کی دہلیز پہ جھکتی ہے تقدس کی جبیں

وہ تبسم وہ جمالِ رخِ زیبا ہوں میں


وسعتِ کون و مکاں گم مری پنہائی میں

جس میں بستا ہے زمانہ وہ زمانہ ہوں میں


لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی صورت ہی نہیں

یہ اگر سچ ہے تو کس حسن کا نقشہ ہوں میں


میں کسے یاد کروں کس کو پکاروں اعظم

ادس بھری بزم میں بیگانہ ہوں تنہا ہوں میں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

اساں دکھیاں تے ایہہ احسان نہ کر

اوہو نیڑے اوہو دور دسے

حسن دے ہتھ شمشیر

کر کر ہار سنگار او سانول موئیاں نوں نہ مار

واقف راہِ شریعت ہوں وہ فرزانہ ہوں

دوہڑے

دوھڑے

سسی پنوں

میم مدینہ مارہرہ کی قسمت ہے

اج ایتھے جناں دا توں دم پیا بھرناں