واقف راہِ شریعت ہوں وہ فرزانہ ہوں

واقف راہِ شریعت ہوں وہ فرزانہ ہوں

محرمِ رازِ حقیقت ہوں وہ دیوانہ ہوں


کعبہء اہلِ طریقت ہوں وہ کاشانہ ہوں

مستیاں کرتا ہوں تقسیم وہ میخانہ ہوں


جس سے پیمانے کریں ہیار وہ میخوار ہوں میں

جس سے میخوار لپٹ جائیں وہ پیمانہ ہوں


عشق و مستی کے چمن میں ہوں بہاروں کی طرح

علم و حکمت کا چھلکتا ہوا پیمانہ ہوں


اہلِ ایماں کی نگاہوں میں ہدایت کا چراغ

بت پرستوں کے لیے زینتِ بت خانہ ہوں


کبھی مسجودِ ملائک ہوں کبھی سر بسجود

ہوں کبھی شمع کبھی صورتِ پروانہ ہوں


کبھی مندر کبھی مسجد ہے ٹھکانہ میرا

کبھی کافر ہوں کبھی مومنِ فرزانہ ہوں


پوجتے ہیں مجھے اربابِ بصیرت واللہ

وہ رخِ یار ہوں وہ جلوہء جانانہ ہوں


کسی صورت سے بھی ملتی نہیں صورت میری

سب میں بے مثل ہوں یکتا ہوں جداگانہ ہوں


میں وہ پردہ ہوں کہ اٹھ جائے تو کچھ بھی نہ رہے

دونوں عالم کا بھرم ہوں وہ پری خانہ ہوں


موت کیا مجھ کو مٹائے گی جہاں سے اعظم

ذرے ذرے کی زباں پر ہوں وہ افسانہ ہوں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

مینوں سمجھ نہ یار اریرے

اساں دکھیاں تے ایہہ احسان نہ کر

اوہو نیڑے اوہو دور دسے

حسن دے ہتھ شمشیر

کر کر ہار سنگار او سانول موئیاں نوں نہ مار

جس کی آغوش میں دریا ہے وہ قطرہ ہوں میں

دوہڑے

دوھڑے

سسی پنوں

میم مدینہ مارہرہ کی قسمت ہے