خوشبو جو مل گئی ہے یہ زلفِ دراز سے

خوشبو جو مل گئی ہے یہ زلفِ دراز سے

وہ لطف ہم نے پایا ہے عشقِ مجاز سے


کھانا بھی کھا رہا ہوں یہ ان کے کرم سے میں

سب کچھ یہ مل رہا ہے مجھے بے نیاز سے


عشقِ نبی نے کر دیا ہم دوشِ آسماں

فرشِ زمیں بھی حیراں ہے میرے فراز سے


کر دیتا خاک مجھ کو جلا کر مرا عمل

رحمت اگر نہ ہوتی یہ مجھ پر حجاز سے


میں ہوں نمازِ عشق میں خضرٰی کے سامنے

رفعت عطا ہوئی ہے مجھے اس نماز سے


دل میں نہیں ہے جس کے مدینے کی آرزو

مدحت وہ لکھ نہ پائے گا قائم گداز سے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

نعت گو ہے خدا نعت خواں آسماں

آنکھیں سوال ہیں

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

جانم فدائے حیدری یا علیؓ علیؓ علیؓ

زمیں میلی نہیں ہوتی ضمن میلا نہیں ہوتا

(بحوالہ معراج)اور ہی کچھ ہے دو عالَم کی ہَوا آج کی رات

میں خاکسار بھلا کس شمار میں یارب

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے