خدا کے حسن کا پُر نور آئینہ کیا ہے
نبی کے چہرۂ انور کے ماسوا کیا ہے
چمک یہ چاند میں، سورج میں یہ ضیا کیا ہے
نبی کے حسن کی خیرات کے سوا کیا ہے
کسی کو تیری حقیقت کا کچھ پتہ کیا ہے
خدا ہی جانے شہا تیرا مرتبہ کیا ہے
جسے بھی دیکھیے اس پر نثار ہے ہر دم
جمالِ گنبدِ خضریٰ میں اے خدا کیا ہے
نبی کے عشق کا سرمایہ پاس ہے اپنے
سوائے اس کے مرے دل میں اور رکھا کیا ہے
کروں یہ عرض کہ میرا وطن بھی ہو طیبہ
کبھی حضور جو پوچھیں کہ مدّعا کیا ہے
لگا کے قدموں کی ٹھوکر حضور، دل سے کہیں
دھڑکتا کیوں ہے اے ناداں، تجھے ہوا کیا ہے
خراجِ عشق اگر پیش کرنا ہے تجھ کو
جبیں کو در پہ جھکا اتنا سوچتا کیا ہے
نشانِ منزلِ مقصود ہے، بتا دینا
کوئی جو پوچھے شہ دیں کا نقشِ پا کیا ہے
گلاب، جوہی، چمیلی میں ہے جو خوشبو بسی
نبی کے پاک پسینے کے ماسوا کیا ہے
طلب کا ہاتھ میں پھیلاؤں در پہ کیوں احمدؔ
وہ جانتے ہیں مرے دل کا مدّعا کیا ہے
نبی کی نعت سخن کی ہے آبرو احمدؔ
بغیر اس کے سخن میں بتا مزہ کیا ہے؟
شاعر کا نام :- مولانا طفیل احمد مصباحی
کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت