میں کچھ نہ سہی میرا مقدر تو بڑا ہے

میں کچھ نہ سہی میرا مقدر تو بڑا ہے

سنگِ درِ محبوب پہ سر میرا جھکا ہے


کیا خوب صِلہ نعتِ محمؐد کا ملا ہے

میزان ِ محبت پہ ہر اک شعر تُلا ہے


سرکارؐ کے قدموں کے نشان ڈھونڈ رہا ہے

جو اشکِ محبت مری آنکھوں سے گرا ہے


سایہ جسے دامانِ محمدؐ کا ملا ہے

قیدِ غمِ کونین سے آزاد ہُوا ہے


یہ ذرہ جسے آج سبھی کہتے ہیں خورشید

خاکِ قدمِ سرورِ عالمؐ سے اُڑا ہے


اب ہیچ نظر آتی ہے سب دولتِ کونین

دامانِ طلب یوں تیری رحمت نے بھرا ہے


کیوں مری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو

جس کو ہے مری لاج وہ لجپال بڑا ہے


آسودہ نظر آتا ہے ہر ایک کرم سے

جو سرورِ کونینؐ کے کوچے کا گدا ہے


جینے کا ملا ہے تری سیرت سے قرینہ

قرآن مجسم تری ہر ایک ادا ہے


یہ شفقت و رحمت ہے کہ ہر اک دلِ مایوس،

بخشش کا یقیں لے کے ترے در سے اُٹھا ہے


ہٹتی نہیں سرکارؐ کی سیرت سے نگاہیں

ہر وقت مرے سامنے قرآن کھلا ہے


کرتے ہیں نکیرین ادب میرا لحد میں

مٹ کر تری الفت میں یہ اعزاز ملا ہے


دامن میں چھپا لو کہ پیشمان ہے خالدؔ

آخر یہ تمہارا ہے بُرا ہے کہ بھلا ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

قطرہ مانگے جو کوئی

اسے ڈھونڈتے آئیں گے خود کنارے

صلوٰۃْ سلامُ عَلَی المُصطَفےٰ

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

ظلمتِ شب کو تو نے اجالا دیا

وہ ہے رسُول میرا

اے راحتِ جاں باعثِ تسکین محمدؐ

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا