!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

کِس اوج پر ہے آج ستارہ نصیب کا


پھر کِس لیے ہے میرے گناہوں کا احتساب

!جب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیب ؐ کا


!راہِ فراق میں بھی رفیقِ سفر رہا

زخمِ جگر نے کام کیا ہے طبیب کا


یہ بارگاہِ حُسنِ دو عالم نہ ہو کہیں

ہے پاسباں رقیب یہاں کیوں رقیب کا


!واصفؔ علی تلاش کرے اب کہاں تجھے

دُوری کو جب ہے تجھ سے تعلّق قریب کا

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

راضی جنہاں گنہگاراں تے حضور ہوگئے

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

کعبہ کے بَدرالدُّجی تم پہ کروروں درود

سخنوری میں زیر اور زبر کہے علیؑ علیؑ

سب سے اولٰی و اعلٰی ہمارا نبیﷺ

ہر جذبہ ایماں ہمہ تن جانِ مدینہ

سر نامہ جمال مدینہ رسُول کا

دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے

محمد مصطفٰی آئے بہاروں پر بہار آئی