اِمتیازات مِٹانے کے لیے آپؐ آئے

اِمتیازات مِٹانے کے لیے آپؐ آئے

ظلم کی آگ بجھانے کے لیے آپؐ آئے


آدَمِیَّت سے تھا محروم گلستانِ حیات

اور یہ پھول کِھلانے کے لیے آپؐ آئے


قیصرِیّت تھی اُدھر اور اِدھر اَصنام گری

اِن فصیلوں کو گرانے کے لیے آپؐ آ ئے


آج تعلیم ِ مساوات ہے وہ جرم ِ عظیم

جس کی پاداش میں کٹتی ہیں زبانیں کتنی


آج سوچوں پہ بھی قانون کی زَد پڑتی ہے

خوفِ تعزیر سے رُکتی ہیں اُڑ انیں کتنی


ایک لُقمے کے لیے آج کروڑوں بھو کے

ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو تنتی ہیں کمانیں کتنی


آپؐ کے سامنے کرتا ہوں یہ اعلان کہ میں

حق پرستی سے جو باز آؤں تو فنکار نہیں


آپؐ کے دامنِ رحمت کا سہارا ہے مجھے

میں حکومت کی عنایت کا طلبگار نہیں


میرے جمہور کی دولت ہیں یہ دشت و کہسار

میرے جمہور کا گھر سایہء دیوار نہیں


آپؐ آئے تھے کہ آتش کدہء عالم میں

اَمن ہو ‘ حُسن ہو ‘ تہذیب ہو ‘ رعنائی ہو


آپؐ آئے تھے کہ انسان کا دل یوں لَو دے

جس طرح چاندنی چشمے میں اُتر آئی ہو


اجنبیت ہو کچھ اس رنگ سے بالیدہ ء و نرم

کہ ہر انسان ‘ ہر انسان کا شیدائی ہو


آج انسان کی پہچان ہوئی ہے دُشوار

آج تقدیس کا معیار زَر اَندوزی ہے


آج تہذیب کے پردے میں ہے انسان کُشی

اَمن کے نام پہ تدبیرِ جہاں سوزی ہے


جنگ ہوتی ہے تو یاروں کے چمن کھلتے ہیں

خوں کے چھینٹوں پہ گمانِ چمن اَفروزی ہے


قافلے نکلے ہیں ‘ قصدِ چمن آ رائی ہے

یہ وہ انساں ہیں جو دل سوختہ ‘ لب دوختہ ہیں


آپ ہی قدر کریں ‘ آپ ہی انصاف کریں

فقط احساس کی بیداریاں اَندوختہ ہیں


اِن کے ہونٹوں سے برستے ہیں مساوات کے گیت

اور محلوں میں شہنشاہ بَر اَفروختہ ہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

کِتنا بڑا ہے مُجھ پہ یہ اِحسانِ مصطؐفےٰ

نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے

ذوقِ دیدار اسے کیوں نہ ہمارا ڈھونڈے

اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے

جس دَور پہ نازاں تھی دنیا

صحرا میں برگ و شجر، سبزہ اُگانے والے

کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں

اس طرف بھی شاہِ والا

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

ہُوا جلوہ گر آفتابِ رسالت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا