ہُوا جلوہ گر آفتابِ رسالت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

ہُوا جلوہ گر آفتابِ رسالت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

مٹی دہر سے کفر وباطل کی ظلمت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا


برآئی با لآخر تمنّا ئے فطرت، چلی باغ عالم میں باد مسّرت

ہنسی زندگی ، جھُوم اُٹھی مشیّت، زمیں جگمگائی فلک جگمگایا


بہشت ِ بریں کے کھُلے باب سارے فلک سے ملائک سلامی کو اُترے

ہوئی سرورِؐانبیاؑ کی ولادت زمیں جگمگائی فلک جگمگا یا


اُجالا صداقت، محبّت، وفا کا ، کراں تا کراں ساری دنیا میں پھیلا

ہوئی جب نموُدار صبح ِ سعادت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا


جو پھوٹی کرن خانہء آمنہ سے زمانہ چمک اٹّھا اُس کے ضیا سے

ملی نوع انساں کو راہِ ہدایت زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

کونین میں یُوں جلوہ نُما کوئی نہیں ہے

ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

فلک کے نظارو زمیں کی بہارو

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

تسبیح شب و روز رہے نامِ خدا کی

کیا شان ہے کیا رتبہ ان کا، سبحان اللہ سبحان اللہ