میں تیرا فن ہوں

میں تیرا فن ہوں ۔۔ یہی فن ترا غرور ہُوا

تری انا کا مری ذات سے ظہور ہُوا


ترے وجود کو وحدت ملی تو مجھ سے ملی

تو صرف ایک ہُوا ‘ جب میں تجھ سے دُور ہُوا


بس ایک حادثہء کن سے یہ جدائی ہوئی

میں ریگِ دشت ہُوا ‘ تو فرازِ طُور ہُوا


ترے جمال کا جو ہر مرا رقیب نہ ہو

میں تیری سمت جب آیا تو چُور چُور ہُوا


عجیب طرح کی اِک ضد مرے خمیر میں ہے

کہ جب بھی تیرگی اُمڈی میں نُور نُور ہُوا


یہ اور بات ۔۔ رہا انتظار صدیوں تک

مگر جو سوچ لیا میں نے ‘ وہ ضرور ہُوا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

جس راہ توں سوہنیا لنگھ جاویں اوہدی خاک اٹھا کے چُم لیناں

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

ذوقِ دیدار اسے کیوں نہ ہمارا ڈھونڈے

آگیا ہے چین دل کو در تمھارا دیکھ کر

بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے

اے بِیابانِ عَرب تیری بہاروں کو سلام

مرا کل بھی تیرے ہی نام تھا

احمد کہوں کہ حامدِ یکتا کہوں تجھے

جذبہ ِ عشق ِ سرکارؐ کام آگیا

سرِ سناں سج کے جانے والے