یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا
تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا
تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق
تو نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا
جن کو دھندلا گئے صدیوں کی غریبی کے غبار
اُن خد و خا ل کو سونے کی طرح چمکایا
سمٹ آیا ترے اک حرفِ صداقت میں وہ را ز
فلسفوں نے جسے تا حدِّ گماں اُلجھایا
راحتِ جاں ! ترے خورشیدِ محبت کا طلوع
دھوپ کے روپ میں ہے ابرِ کرم کا سایا
قصرِ مرمر سے ‘ شہنشاہ نے ‘ از راہِ غرور
تیری کُٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا
کتنا احسان ہے انسان پہ تیر ا ‘ کہ اُسے
اپنی گُفتار کو ‘ کِردار بنانا آیا
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال