حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے

حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے

کیا چاند کی تنویر ستاروں میں چھنی ہے


کہدے میرے عیسٰی سے مدینے میں یہ کوئی

اب جان پہ بیمارِ مَحَبّت کے بنی ہے


محبوب کو بے دیکھے ہوئے لوٹ رہے ہیں

عشّاق میں کیا رنگِ اویسِ قرنی ہے


گھر سے کہیں اچھا ہے مدینے کا مسافر

یاں صبحِ وطن شامِ غریب الوطنی ہے


معراج میں حوروں نے جو دیکھا تو یہ بولیں

کس نوک پلک کا یہ جوانِ مدنی ہے


اِک عمر سے جلتا ہے مگر جل نہیں چکتا

کس شمع کا پروانہ اویسِ قرنی ہے


عشاق سے پوچھے نہ گئے حشر میں اعمال

کیا بگڑی ہوئی بات مَحَبّت سے بنی ہے


یاد احمدِ مختار کی ہے کعبہِ دل میں

مکے میں عیاں جلوہِ ماہِ مدنی ہے


کس شوق سے جاتے ہیں مدینے کے مسافر

محبوب وطن سے کہیں یہ بے وطنی ہے


کہتا ہے مسافر سے یہ ہر نخلِ مدینہ

آرام ذرا لے لو یہاں چھاؤں گھنی ہے


آغوشِ تصور میں بھی آنا نہیں ممکن

حوروں سے بھی بڑھ کر تری نازکبدنی ہے


اللہ کے محبوب سے ہے عشق کا دعوٰی

بندوں کا بھی کیا حوصلہ اللہ غنی ہے


آنکھوں سے ٹپکتا ہے مری رنگِ اویسی

جو لختِ جگر ہے وہ عقیقِ یمنی ہے


میں اس کے غلاموں میں ہوں جو سب کا ہے آقا

سردارِ رسل سیّدِ مکی مدنی ہے

شاعر کا نام :- امیر مینائی

بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ

درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

دنیا نہیں دیتی تو نہ دے ساتھ ہمارا

اس کی طرف ہوا جو اشارہ علیؓ کا ہے

کوئی نہیں ہے ثانی تِرا کائنات میں

گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات

کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی