مقّدر میں یہی مرقوم کر دے

مقّدر میں یہی مرقوم کر دے

مدینے کا سفر مقسوم کر دے


ہماری زندگی بکِھری ہوئی ہے

مِرے مولا! اِسے منظوم کر دے


تراہی غم سلامت ہو دلوں میں

اِسی غم سے ہمیں مغموم کر دے


تِری رحمت کے بازو ہیں کشادہ

ہمیں بس اپنا ہی محکوم کر دے


ہمارے ہر طرف یہ حلقہ زن ہے

عدو کے راستے معدوم کر دے


ہمیں دنیا نے مہمل کر دیا ہے

ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر دے

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

ماہ سیما ہے اَحْمدِ نوری

منگتے خالی ہاتھ نہ لَوٹے کِتنی ملی خیرات نہ پوچھو

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

معراج دی راتیں آقا نے جبریل نوں ایہہ فرمایا اے

رب کی ہرشان نرالی ہے

خدا کا فضل برسے گا کبھی مایوس مت ہونا

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

حبیبا اچی شان والیا

مرے جذبوں کو نسبت ہے فقط اسمِ محمد سے

بجز رحمت کوئی سہارا یا رسول اللہﷺ