حمد کب آدمی کے بس میں ہے

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

ایک حسرت نفَس نَفَس میں ہے


فکر کیا سوچ کر ہے بال کشا

جس کی پرواز ہی قفس میں ہے


دو جہاں جس کے تابعِ فرماں

کب کسی کی وہ دسترس میں ہے


ہے بقا اس کی ذات کو شایاں

جلوہ فرما وہ پیش و پس میں ہے


اس کی موج ِ کرم سے ہی تائبؔ

زیست کی لہر خار و خس میں ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

ہر جذبہ ایماں ہمہ تن جانِ مدینہ

ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں

یا محمد نور مجسم تیری رب نے شان و دھائی

میٹھا مدینہ دور ہے جانا ضَرور ہے

بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے

جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابلِ نذرانہ

طلب کا منھ تو کس قابل ہے یا غوث

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں