الٰہی شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلاکر

الٰہی شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلاکر

مری اس کیفیت کو اپنی رحمت سے پذیرا کر


بھٹکتی آنکھ کو مرکوز فرما صبغتہ اللہ پر

دلِ بے تاب کو خوشبوئے یٰسیں سے شکیبا کر


مری بھیگی ہوئی پلکیں مخاطب ہیں تو بس تجھ سے

مری تقدیر کے تاریک غاروں میں اجالا کر


مرے چاروں طرف ہے، رقصِ وحشت روک دے اس کو

مرے اندر جو دشمن بڑھ رہا ہے اُس کو پسپا کر


رسُولِؐ پاک کے رستے سے ہٹ کر خوار ہے امّت

امین اس کو فلاح وخیر کا پھر سے خدایا کر


فروغ اقدارِ پیغمبرؐ کا ہو پھر سے زمانے میں

پریشاں آدمیّت پر کرم کا باب پھروَاکر


دُعائے سیّدؐ سادات سینے میں فروزاں ہے

حسیں کر دے مری دنیا، حسیں تر میری عقبہ کر


ترے محبوبؐ کی توصیف میں لب کھولتا ہوں مَیں

بہاراں آشنا یارب مری سوچوں کا صحرا کر


زوال آمادہ ہیں ہرچند اعصاب و قویٰ پھر بھی

جواں رکھ میرے جذبوں کو مرے لفظوں کو اجلا کر

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

میں بندہ آصی ہوں خطا کار ہوں مولا

حکمت کے آئینے کا سکندر ہے تو حسینؑ

صدق و یقین و مہر و محبت حسینؑ ہیں

امیدیں جاگتی ہیں دل ہیں زندہ گھر سلامت ہیں

باقیِ اَسیاد یا سَجّاد یا شاہِ جواد

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے

میرے اچھّے رسُول

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

یہ کرم یہ بندہ نوازیاں کہ سدا عطا پہ عطا ہوئی

توں ایں ساڈا چین تے قرار سوہنیا