جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

ہوا خیال منوّر، مہک گیا احساس


اُسی کے فکر میں گم سُم ہے کائناتِ وجود

اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمہ انفاس


اُسی کے اذن سے ہے کاروانِ زیست رواں

اُسی کے حکم پہ غیب و شہود کی ہے اساس


اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر

تو حکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس


ہے ارتبا طِ عناصر اُسی کی قدرت سے

اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس


کیے خلا میں معلّق ثوابت وسیّار

بغیرِ چوب کیا خیمہ فلک کو راس


بسا ہوا وہ رگ وپے میں کائنات کے ہے

کچھ اِس طرح سے گلیوں میں نہاں ہو جیسے باس


ہر ایک مومن و منکر کا ہے وہ رزق رساں

ہر ایک بیکس و درماندہ کا ہے قدرشناس


بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر

انھیں بنا یا گیا ایک دوسرے کا لباس


مجھے شریک کرے کاش ایسے بندوں میں

جنھیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں

ہم درد کے ماروں کا ہے کام صدا کرنا

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم

ذاتِ نبی کو قلب سے اپنا بنائیے

صاحبّ التّاج وہ شاہ معراج وہ

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی

دیں سکون تیرے نام یا عزیزُ یا سلام

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں