مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

کمالِ حُسن نے آ کر مرا طواف کیا


چلا جو بزم میں دورِ ثنائے سرورِ دیں

تو خوشبوئوں نے بھی ماحول کا طواف کیا


اُنہیں کو ڈھونڈا نظر نے فضائے مکہ میں

میری نگاہوں نے سب سے جدا طواف کیا


نگاہ پڑتے ہی روضے پہ قلبِ پر غم نے

اگر طواف کیا تو بجا طواف کیا


ملی جو خاکِ مدینہ تو سامنے رکھ کر

عدد کی قید سے نکلا، بڑا طواف کیا


ترے گدا نے مسرت سے رقص کرتے ہوئے

تری عطائوں کو دے کر دعا طواف کیا


ہوائے لطف نے پا کر ترے اشارے کو

بروزِ حشر مرا بے بہا طواف کیا


خیالِ حُسنِ نبی کا دلِ تبسم نے

کسی کو کچھ بھی بتائے بِنا طواف کیا

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

تیری ہی ذات اے خدا اصلِ وجُودِ دوسرا

راحت جاں ہے خیال شہؐ مکی مدنی

سجنوں آیا اے ماہِ رمضان

یا رب! ہو در محبوبؐ پر قیام

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

تن من وارا جس نے دیکھا چہرہ کملی والےﷺ کا

خدا کے نامِ نامی سے سخن ایجاد کرتا ہوں

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

اِذنِ طیبہ عطا کیجئے