کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

سفر کی آخری منزل مدینہ


حقیقت سایہ افگن ہے زمیں پر

زمیں کا عرش ہے شہرِ مدینہ


نویدِ امن و راحت عاصیوں کو

میرے آقاؐ کی بعثت کا مہینہ


درُونِ ذات سر گرمِ سفر ہوں

تصّور رہ گزر ہے‘دِل مدینہ


اُنہیںؐ کا فیض اُمّیدِ شفاعت

وہیؐ ہیں قلبِ مومن کا سکینہ


شریعت‘ ضابطہ اُنؐ کے عمل کا

طریقت‘ رابطہ سینہ بہ سینہ


امیں‘ صادق، نبیؐ ، محبُوبِ داور

عروُجِ منزلت زینہ بہ زینہ


ہمارے جُرم پر اُنؐ کو ندامت

وگرنہ اُنؐ کے ماتھے پر پسینہ

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

حمدیہ اشعار

کھلے بوہے ویخ کے تیرے دوارے آگئے

نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے

صف بستہ تھے عرب

شب کو بھی جہاں لاکھوں خورشید نکلتے ہیں

اللہ کی رَحمت سے پھر عزمِ مدینہ ہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

ہر رنگ میں اُن کا جلوہ ہے

کہیں بستی کہیں صحرا نہیں ہے