ہمیشہ جوش پر نظر کرم ہے میرے خواجہ کا

ہمیشہ جوش پر نظر کرم ہے میرے خواجہ کا

زمانہ بندہ جود ونعم ہے میرے خواجہ کا


نچھاور ہے متاع دو جہاں اس دل کی قیمت پر

کہ نامِ پاک جس دل پر رقم ہے میرے خواجہ کا


منور ہند کا ظلمت کدہ خواجہ کے دم سے ہے

دیارِ ہند ممنون کرم ہے میرے خواجہ کا


نوازش ہے کہ دریا بہہ رہا ہے فیض و رحمت کا

زمانہ پر سدا لطف اتم ہے میرے خواجہ کا


نگوں ہو کر رہا ہر ایک کا پرچم زمانے میں

بلندی پر نصب اب تک ہے پرچم میرے خواجہ کا


ہزاروں پرچم شوکت اڑے اور مٹ گئے آخر

بلندی پر نصب اب تک ہے پرچم میرے خواجہ کا


در اقدس کا ہر ذرہ غبارِ طور سینا ہے

دلِ روشن گزر گاہ حرم ہے میرے خواجہ کا


ہزاروں قافلے عرفان کی منزل پہ جاپہنچے

چراغ رہگذر نقشِ قدم ہے میرے خواجہ کا


سلاطین جہاں بھی سنگ در کی خاک ملتے ہیں

تعالی اللہ وہ جاہ وحشم ہے میرے خواجہ کا


کہاں سے آرہی ہے حشر میں آواز ارشد کی

گنہ گارو چلو باغ ارم ہے میرے خواجہ کا

شاعر کا نام :- علامہ ارشد القادری

کتاب کا نام :- اظہار عقیدت

نعت کے صحیفے ہیں

سرِ سناں سج کے جانے والے

سرکار بنا لطف و عطا کون کرے گا

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مِرے آقا! کرنا

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

دنیا نہیں دیتی تو نہ دے ساتھ ہمارا

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے

ہم خاک ہیں اور خاک ہی مَاوا ہے ہمارا