مِرا جہاں میں ظُہور و خِفا مُعینی ہے
میں وہ ہُوں جس کی فنا و بقا مُعینی ہے
ہم اہلِ چشت ہیں خواجہؒ کے چاہنے والے
ہمارے شہر کی آب و ہَوا مُعینی ہے
کُھلا ہُوا ہے درِ غوثِ پاکؒ و خواجہ مُعینؒ
یہ قادری تو وہ دارُالشِّفا مُعینی ہے
وِلائے خواجہؒ سے سرشار ہیں تمام ولی
خدا گواہ کہ ہر با خدا مُعینی ہے
جِلو میں اپنے ہجوم ِ تجلّیات لیے
یہ کوئی قادری بیٹھا ہے ، یا مُعینی ہے
گدائے خواجہء اجمیرؒ ہوں بحمدِ اللہ
مِری حیات کا رنگِ غِنا مُعینی ہے
مِرے طریق سے خارج ہے مصلحت کوشی
فقیر قول و عمل میں کھُلا مُعینی ہے
مثالِ آئنہ شفّاف ہے مِری فطرت
خدا کا شکر کہ جوہر مِرا مُعینی ہے
مِری سرشت میں شامل ہے خوئے بُت شکنی
مِرا مزاج بہ فضلِ خدا مُعینی ہے
مُعینیوں کا تو شیوہ ہے قُربتوں کا فروغ
جو دُوریا ں نہ مٹا دے وہ کیا مُعینی ہے
یہ ناقدانہ تخاطُب بجا ، مگر حضرت !
رہے خیال کہ بندہ ذرا مُعینی ہے
وہ جس نے پھول کھِلائے ہیں لفظ و معنیٰ کے
وہ ایک شاعرِ رنگیں نوا مُعینی ہے
نصیرِ دینِ متیں خود کو کر دیا ثابت
نصیرؔ! تُو تو بڑے کام کا مُعینی ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت