اجمیر چلو اجمیر چلو دربار لگا ہے خواجہ کا

اجمیر چلو اجمیر چلو دربار لگا ہے خواجہ کا

رندو اپنے ساغر بھر لو میخانہ سجا ہے خواجہ کا


سلطان الہند کو حاصل ہے طیبہ سے ولایت کی ڈگری

بھارت میں چپہ چپہ پر کیا رنگ جما ہے خواجہ کا


کشمیر سے لے کر کیرل تک ہر سمت تھے ظلمت کے سائے

توحید کی لَے پر ہند میں تب نقارہ بجا ہے خواجہ کا


مذہب تو جدا ہے ہر ایک کا پر جذبِ عقیدت یکساں ہے

ہندو مسلم عیسائی سکھ ہر شخص گدا ہے خواجہ کا


توحید کی مے ہو بغدادی پینے کو جام ہے اجمیری

جی بھر کے پیو اے مستانو کیا دور چلا ہے خواجہ کا


کیوں شرمائیں کیوں گھبرائیں کیوں دل کو ہم ہلکان کریں

اے عاصیو دوڑو بخشش کو دروازہ کھلا ہے خواجہ کا


نظمی بھی غلامِ خواجہ ہے خواجہ کا ہی دم بھرتا ہے

پشتینی غلامی کا اس کو تمغہ یہ ملا ہے خواجہ کا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

اگر نادِ علی پڑھنے کی رسم ایجاد ہو جائے

خوشبو زمینِ نینوا سے لے گیا گلاب

یاوری کی بخت نے یوں حضرت بو العاص کی

سَر میں ہے نوکِ سناں

میرے داتا کے عرس پر آنے والو سنو آ رہی ہے صدائے بلالی

وجہ تسکین دل و جان محمدؐ عربی

وفا کا  باب  ابد  تک   پڑھا گئے ہیں حسین

افتخارِ ولایت پہ لاکھوں سلام

دلبر میرے دلدار ہی عثمان غنی ہیں

ہر مسلماں کی تمنا آمنہ ؑ کا لالؑ ہے