بڑی اونچوں سے اونچی ہے تیری سرکار یا صابر
سدا رحمت برستی ہے تیرے دربار یا صابر
گیا نہ آج تک خالی تیرے در سے کوئی سائل
فرید الدین گنج شکر کے دلدار یا صابر
مہک اٹھی فضا کلیر کی تیری ذات اقدس سے
کھلے میرے دل مضطر کی بھی گلزار یا صابر
تیرے صبر و رضا کا واسطہ اللہ کرم کرنا
میری سوئی ہوئی قسمت بھی ہو بیدار یا صابر
تیرے مہر و وفا کی دھوم ہے سارے زمانے میں
میری جانب بھی ہو نظر کرم اکبار یا صابر
قدم چومے ہیں دنیا کے شہنشاہوں نے جھک جھک کر
بندھی دیکھی ہے جس کے سر تیری دستار یا صابر
دل و جاں فرش راہ ہیں آ بھی جا کہ عید ہو جائے
تیرے صدقے تیرے قرباں تیرے بلہار یا صابر
بڑی سرکار ہے تیری سہارا دو نیازی کو
تیرے ہی نام سے ہوتے ہیں بیڑے پار یا صابر
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی