اللہ رے کیا بارگہِ غوثِؒ جلی ہے
گردن کو جھُکائے ہوئے ایک ایک ولی ہے
وہ ذات گُلستانِ رسالت کی کلی ہے
نَورُستہء گُلِ گُلشنِ زہرا و علی ہے
اولادِ حسن، آلِ حسین ابنِ علی ہے
بیشک شہِؒ بغداد ولی ابنِ ولی ہے
سب اُن کی عنایت ہے خفی ہے کہ جلی ہے
ہر رسمِ کرم اُن کے گھرانے سے چلی ہے
جس دل پہ نظر اُن کی ہو وہ روشن و بینا
اُن کو جو پسند آئے وہی بات بھَلی ہے
ہوں نقشِ قدم جس پہ نبیؐ اور علی کے
اُس در پہ کسی کی نہ چلے گی ، نہ چلی ہے
اک سلسلہء نُور ہے ہر سانس کا رشتہ
ایمان مِرا حُبِّ نبیؐ ، مہرِ علی ہے
اُس ذات سے شاہی کے قرینے کوئی سیکھے
وہ ذات کہ جو فقر کے سانچے میں ڈھلی ہے
مجھ کو بھی محبّت ہے بہت، بادِ صبا سے
کیوں کر نہ ہو آخر ترے کُوچے سے چلی ہے
مُشکل ہوئی آسان لیا نام جو اُن کا
یورش غم و آفت کی مِرے سَر سے ٹلی ہے
محشر میں وہی غازہء انوار بنے گی
مٹّی تِرے کُوچے کی جو چہرے پہ مَلی ہے
ہر گام پہ سجدے کی تمنّا ہے جبیں کو
یہ کس کا درِ ناز ہے؟ یہ کس کی گلی ہے ؟َ
جو نُور ہے بغداد کی گلیوں کا اُجالا
ہر ایک کرن اُس کی مدینے سے چلی ہے
مَیں اُن کا ہُوں تا حشر نصیؔر اُن کا رہوں گا
صد شکر کہ اُن سے مِری نسبت اَزَلی ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت