الٰہی سَر پہ رہے دستگیرؒ کی چادر

الٰہی سَر پہ رہے دستگیرؒ کی چادر

کہ پردہ پوش ہے پیرانِ پیرؒ کی چادر


نظر میں ہے شہِ گردوں سریر کی چادر

زہے نصیب، مِلی دستگیرؒ کی چادر


شریکِ عرسِ مبارک ہُوئے ہیں اہلِ صفا

زمانہ دیکھ لے غوثِؒ کبیر کی چادر


جسے حسین و حسن سے نبیؐ سے نسبت ہو

وہ آکے دیکھے جنابِ امیر کی چادر


متاعِ کون و مکاں تار تار میں ہے نہاں

رِدائے فقر و وِلا ہے فقیر کی چادر


ادب سے لوگ چھُوئیں ، پھر لگائیں آنکھوں سے

یہ ہے رسولِؐ خدا کے وزیر کی چادر


نگاہ و دل ہیں حقیقت کے نُور سے روشن

کہ ہے یہ مُرشدِ روشن ضمیر کی چادر


ہمیں نصیب زیارت ہے ، اے خوشا قسمت!

کھڑے ہیں سَر پہ لیے ، اپنے پیر کی چادر


خُلوصِ دل سے وُہ لایا ہے نذر کرنے کو

قبول کیجئے اپنے نصیؔر کی چادر

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

شہنشاہِ ولایت خِسروِ اقلیمِ رُوحانی

محشر میں مغفرت کی خبر غوثِ پاکؒ ہیں

مَیں تو جاؤں گی واری مَیں اُڑاؤں گی آج گُلال

مورے جگ اُجیارے غوث پیا

یا غوثَ الاعظمؒ جیلانی فیض تِرا لاثانی

شاہِ بغداد ! سدا بول ہے بالا تیرا

آستاں ہے یہ کس شاہِ ذیشان کا مرحبا مرحبا

حق ادا و حق نُما بغداد کی سرکار ہے

ادب سے عرض ہے با چشمِ تر غریب نوارؒ!

دل رُبا دل نشیں معینُ الدّیںؒ