نظر کے سامنے جس دَم خدا کا گھر آیا

نظر کے سامنے جس دَم خدا کا گھر آیا

مِرے نصیب کا تارا بھی اوج پر آیا


نمازِ فجر ادا کر کے جب طواف کیا

تو ہر قدم پہ دعائوں میں اک اثر آیا


غلافِ کعبہ کی تابانیوں کا کیا کہنا

دلِ سیاہ میں لے کر میں اِک سحرآیا


زباں سے ایسے ادا ہو رہی تھی حمد و ثنا

جمالِ کعبہ مری آنکھ میں اُتر آیا


نظر کے سامنے جس دمِ خدا کا گھر آیا

مِرے نصیب کا تارا بھی اوج پر آیا

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

کاروانِ زندگی پیہم رواں ہے صبح و شام

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

رات پوے تے بے درداں نوں

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک

یہ حسرت یہ تمنا ہے ہماری یار سول اللہ

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

پھر مدینے کی فَضائیں پاگیا

داورِ حشر مجھے تیری قسم

سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں